Monday, 16 March 2020

جھوٹے روپ کے درشن


یہ دل ایک ویران مندر تھا۔ جس میں صدیوں سے انتظار کے دیے روشن تھے۔ سنسان خاموشیوں اور اجاڑ اداسیوں کا راج تھا۔ تم نے اس ویرانے میں قدم رکھا تو جیسے زندگی کے ناقوس بج اٹھے۔ بہاروں نے اپنا دامن پھیلا دیا ۔ محبتوں کی سوندھی سوندھی مہک ہر جانب پھیل گئی۔ اس ویرانے کو دائم آبادرکھنا کہ تمہارے بعد یہاں کون لوبان کی خوشبو بکھیرے گا ۔ اپنے وجود کے پھول نچھاور کرے گا ۔ پھر کون یہاں نیم واآنکھوں سے دیوی بن کر بیٹھے گا۔ رات بیت رہی ہے۔ ساری کائنات چپ کی چادر تانے خاموشی کے طوفان میں گم ہو چلی ہے۔ نیند کے خمارمیں ڈوبی چاندنی ڈگمگاتے قدموں سے پھیسل رہی ہے۔ شاید تم سو چکی ہو۔
اپنے ہاتھوں کو ایک بوسہ دے دینا , پہلی فرصت میں قرض اتاردوں گا
تمھارا پجاری

راجا انور
ناول: جھوٹے روپ کے درشن

No comments:

Post a Comment